ذبح
اسلام نے حلال جانور کو کھانے کے لئے اس کے جسم سے جان نکالنے کا جو طریقہ مقرر کیا ہے اسے ذبح کہا جاتا ہے ۔ اللہ نے ذبح کے طریقے کو حلال قرار دیا اس کے علاوہ کسی طریقے سے جانور سے گوشت حاصل کرنا درست نہیں۔
ذبح کے بارے میں ارشاد باری تعالٰی ہے کہ:۔
تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا) لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلا گھٹ کر مر جائے اورجو چوٹ لگ کرمر جائے اور جو گر کر مر جائے اور جو سینگ لگ کر مر جائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے چیڑ پھاڑ کر کھا جائیں مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے اور یہ حرام ہے کہ تم پانسے ڈالو۔ یہ سب کچھ فسق ہے
(مائدہ:۳)
:قربانی کاجانور
قربانی کا سب سے نچلا درجہ بکری ہے. اور یہ قربانی تین طرح کے جانوروں سے دی جا سکتی ہے. اونٹ, گائے اور بکری ان سب میں سے ثنٰی وہ اونٹ جو چھٹے سال میں ہو اور گائے جو تیسرے سال میں اور بکری جو دوسرے سال میں لگی ہو کافی ہو گی . یا اس سے زیادہ عمر کا جانور ان میں سے ہی۔ مگر دنبہ نہیں کیونکہ اس کا چھ ماہ کا بچہ بھی اس معاملہ میں کفایت کر جاتا ہے۔ اور قربانی میں مکمل کان کٹا یا اکثر کان کٹا ھوا جا نور, دم کٹا, ہاتھ اورپاوَں کٹا اور یک چشم گل جانور جائز نہیں۔ اور نہ ہی کمزور اور نہ اتنا لنگڑا جو خود چل کر مذبحہ خانہ تک بھی نہ جا سکتا ہو۔اور ہر قسم کی جنایت میں صرف دو مقامات کے علاوہ بکری جائز ہے وہ دو مقامات ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ جنایت کی حالت میں طواف زیارت کرے, ایک یہ کہ وقوف عرفہ کے بعد صحبت کرلے ۔ان میں بطور بدلہ بکری جائزنہیں بلکہ صرف اونٹ جائز ہے۔
: سات افراد
اونٹ اور گائے میں سے سات افراد کی طرف سےکوئی ایک جانور کافی ہو جاتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ اس میں شریک
ہونے والے سات کے سات آدمیوں کی نیت قربانی کی ہی ہو۔ اگر ان میں سے کسی ایک نے بھی اپنی حصّے کے گوشت کا ارادہ کر لیا تو اس کی وجہ سے باقی افراد کی بھی قربانی نہیں ہوسکے گی اور حج نفلی، تمتع اور قران کی قربانی کے گوشت سے کھا لینا جائز ہے جبکہ باقی قربانیوں میں سے کھانا جائز نہیں اور حج نفلی،حج تمتع اور حج قران کی قربانی کے جانور کو قربانی کے دن کے علاوہ کسی دن ذبح کرنا جائز نہیں ہے جبکہ باقی قربانیوں کو کسی بھی وقت جب چاہے ذبح کر لینا جائز ہے قربانیوں کو حرم شریف کے علاوہ کسی جگہ ذبح کرنا جائز نہیں ہے۔ ان قربانیوں کے گوشت کو حرم شریف کے مساکین اور کچھ اس قسم کے ہی، ان کے علاوہ لوگوں پر صدقہ کر دینا جائز ہے۔ قربانی کے جانوروں کو میدان عرفات کی جانب لے جانا کوئی ضروری نہیں اور اونٹوں میں نحر کرنا اور گائے اور بکری میں ذبح کرنا زیادہ فضیلت کا باعث ہے۔ اگر آدمی اچھی طرح ذبح کر سکتا ہو تو آدمی کا اپنی قربانیوں کو خود ذبح کرنا زیادہ بہتر ہے اور ان جانوروں کی جھولیں اور نکیلیں صدقہ میں دے دے مگر قصاب کی اجرت کے طور پر نہیں دے سکتا جو آدمی "بدنہ" قربانی کا جانور اونٹ وغیرہ لے جا رہا ہو، پھر اس پر سواری کرنے پر کسی وجہ سے مجبور ہوجائے تو اس پر سوار ہو سکتا ہے اگر اس سے بے نیاز
و ضرورت نہ ہو گزارہ ہو سکتا ہو تو ایسی حالت میں اس پر سوار نہ ہو۔
اگر اس جانور کا دودھ ہو تو اسے نہیں نکالے گا بلکہ اس کے تھنوں پر ٹھنڈا پانی چھڑکے تاکہ وہ دودھ ختم ہو جائے منقطع
ہو جائے۔ کسی نے قربانی کا جانور بھیجا اور وہ راستے میں ہلاک ہوگیا اب اگر تو وہ نفلی تھا تو پھر تو اس پر اس کے بدلے دوسرا جانور بھیجنا واجب نہیں ہوگا لیکن اگر وہ واجب تھا تو پھر اس کے ذمے اس کی جگہ دوسرا جانور بھیجنا واجب ہو گا اگر قربانی کے لیے بھیجے جانے والے جانور میں کوئی عیب آجائے تو اس کی جگہ دوسرا جانور تیار کر لے اور اس عیب دارجانور کا جو چاہے کرے اور جب بدنہ راستے میں ہلاک ہونے لگے تو اب اگر وہ نفلی تھا تو اسی نحر کرے۔
"ذبح صرف وہ جائز ہے جو اللہ کے نام پر کیا جاتا ہے"
اس کے گھروں کو اس کے خون میں رنگ دے ۔ اس کے خون کو اس کے شانے پر لگا دے اور اس کے گوشت میں سے نہ تو وہ خود کھائے اور نہ ہی مالدار لوگوں میں سے کوئی کھا سکتا ہے۔ اگر یہ بدنہ واجب تھا تو اس کی جگہ دوسرا بدنہ تیار کرے گا اور پہلے کا جو جی میں آئے کرلے اور نفلی، تمتع اور حج قران کی قربانی کے قلادہ گلے میں کوئی ہار وغیرہ ڈالا جائے گا۔ جبکہ زم احصار میں دینے والے جانور کے گلے میں ہار نہیں ڈالا جائے گا ۔
حلال ذبیحہ کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات مندرجہ ذیل ہیں:۔
"حضرت معاذ بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی لونڈی سلع پہاڑی پر بکریاں چرا رہی تھی ان میں سے ایک بکری بیمار ہوگئی ۔ پس وہ اس کے پاس گئی اور پتھر کے ساتھ اسے ذبح کر دیا ۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپؐ نے فرمایا کہ اسے کھالو"
(بخاری)
قربانی کا مسنون طریقہ:۔
قربانی کرنے والے کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ۔۔
جس شخص نے قربانی کرنا ہو وہ ذوالحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد نہ اپنے بال بنوائے اور نہ ہی ناخن کٹوائے۔ یہاں تک کہ وہ قربانی کرے ۔
(المسلم)
اس حدیث پاک سےمعلوم ہوا کہ قربانی کرنے والے کے لیے عیدالاضحی کا چاند دیکھنے سے عید کے روز قربانی کرنے تک حجامت نہیں بنوانی چاہیَے کیونکہ ایسا کرنا مسنون ہے
Comments
Post a Comment
jazak Allah..