حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولادِ کرام
:حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولادِ کرام:
پہلے ذکرآچکا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام اولاد سوائے حضرت ابراہیم کے حضرت ماریہ قبطیہ کے بطن مبارک سےتھے۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ سےتھی ۔ صاحبزادیاں بالاتفاق چار تھیں۔ چاروں نے زمانہ اسلام پایا۔ اور شرف ہجرت حاصل کیا۔ مگر صاحبزادوں کی تعداد میں اختلاف ہے۔ قاسم و ابراہیم پر اتفاق ہے بقول زبیر بن بکار(متوفی۲۵۶256ھ) صاحبزادے تین تھے۔ قاسم، عبدالرحمن( جن کو طیب و طاہر بھی کہتے تھے) ابراہیم رضی اللہ عنہ۔ اکثر اہل نسب کی یہی رائے ہے۔
-:حضرت قاسم رضی اللہ عنہ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم کی اولاد کرام میں حضرت قاسم بعثت سے پہلے پیدا ہوئے۔ اور قبل بعثت ہی سب سے پہلے انتقال فرما گئے۔ ابن سعد نے بروایت محمد بن جبیر بن مطعم نقل کیا ہے کہ دو سال زندہ رہے۔ بقول مجاہد سات دن اور بقول مفضل بن غسان غلابی تیرہ مہینے زندہ رہے۔ ابن فارس کہتے ہیں کہ سن تمیز کو پہنچ گئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم کی کنیت ابو القاسم ان ہی کے نام پر ہے۔
-;حضرت زینب رضی اللہ عنہما
صاحبزادیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ بعثت سے دس سال پہلے جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک 30 سال کی تھی پیدا ہوئیں۔ ان کی شادی ان کے خالہ زاد بھائی ابوالعاص بقیط بن ربیع سے ہوئی۔ ابوالعاص حضرت خدیجہ الکبریٰ کی بہن ہالا کے بطن سے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے کہنے سے ان کا نکاح بعثت سے پہلے حضرت زینب سے کر دیا تھا۔ جب حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منصب رسالت عطا ہوا تو حضرت خدیجہ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائیں۔ مگر ابوالعاص شرک پر قائم رہا۔ اسی طرح حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعثت سے پہلے اپنی صاحبزادی رقیہ کا نکاح عتبہ بن ابی لہب سے اور ام کلثوم کا نکاح عتیبہ بن ابی لہب سے کر دیا
جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبلیغ کا کام شروع کیا تو قریش نے آپس میں کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹیاں چھوڑ دو۔ اور ان کو اس طرح تکلیف پہنچا وَ۔ چناںچہ وہ ابوالعاص سے کہنے لگے کہ تو زینب کو طلاق دے دے۔ ہم تیرا نکاح قریش کی جس لڑکی سے تو چاہے کرا دیتے ہیں۔ ابوالعاص اس نے انکار کیا۔ مگر ابولہب کے بیٹوں نے حضرت رقیہ و امِ کلثوم کو ہمبستری سے پیشتر طلاق دے دی۔ اگرچہ اسلام نے حضرت زینب و ابوالعاص میں تفریق کر دی تھی۔ مگر مسلمانوں کے ضعف کے سبب سے عمل درآمد نہ ہو سکا۔ یہاں تک کہ ہجرت وقوع میں آئی۔ جب قریش جنگ بدر کے لیے آئے تو ابوالعاص بھی ان کے ساتھ آئے اور گرفتار ہوگئے۔ حضرت زینب نے ان کے بھائی عمرو کے ہاتھ مکہ سے ان کا فدیہ بھیجا جس میں وہ ہار بھی تھا جو حضرت خدیجۃ الکبریٰ نے حضرت زینب کو پہنا کر پہلے پہل ابوالعاص کے ہاں بھیجا تھا۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس ہار کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نہایت رقت طاری ہوئی۔ اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ کا زمانہ یاد آ گیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد سے صحابہ نے فدیہ واپس کر دیا اور ابوالعاص کو بھی چھوڑ دیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوالعاص سے وعدہ کرلیا کہ مکہ جا کر حضرت زینب سلام اللہ علیہما کو مدینہ بھیج دیں گے۔
حضرت ابو العاص مکہ روانہ ہوئے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زید بن حارثہ اور ایک انصاری کو بھیجا کے حضرت زینب کو بطن یا جج سے مدینہ لے آئیں۔ ابو العاص نے مکہ پہنچ کر ایفائے وعدہ کیا۔ اور حضرت زینب سے کہہ دیا کہ تم اپنے والد کے ہاں چلی جاؤ۔ حضرت زینب نے چپکے چپکے سفر کی تیاری کر لی۔ ابو العاص کے بھائی کنانا نے ان کو اونٹ پر سوار کر لیا۔ اور تیروکمان لے کر دن کے وقت روانہ ہوا۔ قریش کے چند آدمیوں نے تعاقب کیا اور زوطویٰ میں جا گھیرا۔
حبار بن اسود جو بعد میں ایمان لایا۔ آگے بڑھا، اس نے حضرت زینب کو نیزہ سے ڈرا کر اونٹ سے گرا دیا وہ حاملہ تھیں حمل ساقط ہوگیا۔ یہ دیکھ کر کنانہ نے ترکش میں سے تیر نکال کر زمین پر رکھ لئے اور کہنے لگا "جو شخص میرے نزدیک آئے گا وہ تیر سے بچ کر نہ جائے گا "یہ سن کر لوگ پیچھے ہٹ گئے۔ ابو سفیان نے کہا۔ "ٹھہرو ہماری بات سن لو" اس پر کنانا رُک گیا۔ ابو سفیان بولا۔ 'ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ سے جو مصیبتیں پہنچی ہیں وہ تمہیں معلوم ہیں۔ اب اگر تم دن دہاڑے ان کی لڑکی کو لے جاؤ گے تو لوگ اسے ہماری کمزوری پر محمول کریں گے۔ ہمیں زینب کو روکنے کی ضرورت نہیں۔ جب شور ہنگامہ کم ہو جائے گا۔ تو رات کو اسے چوری چھپے لے جانا"۔ کنانہ نے اس رائے کو تسلیم کر لیا اور چند روز کے بعد ایک رات حضرت زینب کو اونٹ پر سوار کر کے لے آیا۔ اور زید اور انصاری کے حوالہ کر دی۔ وہ دونوں ان کو مدینہ لے آئے۔
جمادی الاولٰی ۲ھ میں ابو العاص ایک قافلہ قریش کے ساتھ بغرض تجارت ملک شام کو گئے۔ ان کے پاس قریش کا بہت سا مال تھا۔ مقامِ عیص کے نواح میں ان کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک سریہ ملا۔ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بسر کردگی حضرت زید بن حارثہ بھیجا تھا۔ اس سریہ نے ابوالعاص کا تمام مال لے لیا۔ ابوالعاص ہمراہیوں سمیت گرفتار ہو گئے۔ حضرت زینب نے ابوالعاص کو پناہ دی۔ صبح کو جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز فجر سے فارغ ہوئے تو حضرت زینب نےپکارکرکہا کہ میں نے ابو العاص کو پناہ دی ہے۔ مسلمانوں میں سے ایک ادنیٰ شخص پناہ دے سکتا ہے۔ اس لیے ہم نے بھی اس کو پناہ دی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے یہ معلوم نہ تھا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفارش پر ابو العاص کا تمام مال واپس کر دیا گیا۔ ابوالعاص نےمکہ پہنچ کر وہ مال قریش کے حوالہ کر دیا۔ پھر کہا، اے گروہ قریش! کیا تم میں سے کسی کا مال میرے ذمہ باقی ہے؟ سب بولے کہ نہیں۔ خدا تجھے جزائے خیر دے بعد ازاں ابو العاص نے کلمہ شہادت پڑھ کر کہا۔ "اللہ کی قسم! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اسلام لانے سے مجھے یہی امر مانع ہوا کہ تم گمان کرتے کہ میں نے صرف تمہارے مال ہضم کر جانے کے لیے ایک حیلہ کیا ہے اس کے بعد ابوالعاص نے محرم ۷ھ میں مدینہ میں آ کر اظہار اسلام کیا۔ اور حضور اکرم ﷺ نےحضرت زینب کو نکاح اوّل یا نکاح جدید کے ساتھ ان کے حوالہ کردیا۔ حضرت زینب نے ۸ھ میں انتقال فرمایا۔ ام ایمن سودہ بنت زمعہ اور ام سلمہ نےغسل دیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابو العاص نے قبر میں اتارا۔
حضرت زینب کی اولاد ایک لڑکا علی نام اور ایک لڑکی امامہ تھی۔ حضرت علی نے اپنی والدہ ماجدہ کی زندگی میں چھوٹی عمر میں قریب بلوغ کے وفات پائی۔ ابن عساکر کہتے ہیں کہ بعض اہل نسب نے ذکر کیا ہے کہ وہ جنگ یرموک میں میں شہید
ہوئے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوامامہ سے بڑی محبت تھی۔ نماز میں بھی ان کو اپنے کندھے پر رکھ لیتے، جب رکوع کرتے تو اتار دیتے، اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو پھر سوار کر لیتے۔ نجاشی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک حلہ بھیجا۔ جس میں ایک سونے کی انگوٹھی تھی، انگوٹھی کا نگینہ حبشی تھا۔ حضورﷺ نے وہ انگوٹھی امامہ کو عطا فرمائی۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک روز کسی نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ بھیجا۔ جس میں ایک زرّین ہار تھا۔ ازواج مطہرات سب ایک مکان میں جمع تھیں۔ امامہ مکان کے ایک گوشے میں مٹی سے کھیل رہی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سب سے پوچھا یہ ہار کیسا ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ ہم نے عرض کیا کہ اس سے خوبصورت اور عجیب ہار ہمارے دیکھنے میں نہیں آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسے اپنے محبوب ترین اہل کو دوں گا۔ ازواج مطہرات سمجھیں کےعائشہ کو ملے گا۔ مگر حضورﷺ نےامامہ کو بلایا اور اپنے دست مبارک سے وہ ہار ان کے گلے میں ڈال دیا۔
حضرت ابو العاص حضرت زبیر بن العوام سے امامہ کے نکاح کر دینے کی وصیت کر گئے تھے۔ حضرت فاطمہ زہرا نے مرتے وقت حضرت علی المرتضیٰ سے وصیت کی کہ میرے بعد امامہ سے نکاح کر لینا۔ اس لیے حضرت زہرا کے بعد حضرت امامہ کا نکاح حضرت علی المرتضی سے کر دیا۔ چنانچہ حضرت علؓی نے حضرت مغیرہ بن نوفل سے وصیت کی کہ میرے بعد تم امامہ سے نکاح کر لینا چنانچہ حضرت مغیرہ نے حضرت علؓی کی شہادت کے بعد امامہ سے نکاح کر لیا۔ اور ان سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام یحیٰی تھا. بعض کہتے ہیں کہ امامہ کی کوئی اولاد نہیں. حضرت امامہ نے حضرت مغیؓرہ کے ہاں وفات پائی۔
-:حضرت رقیہ
حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور ام کلثؓوم دونوں کی شادی ابو لہب کے بیٹوں سے ہوئی تھی، جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبلیغ کا کام شروع کیا تو ابولہب لعین نے اپنے بیٹوں سے کہا۔ "اگر تم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹیوں سے علیحدگی اختیار نہیں کرتے تو تمہارے ساتھ میری نشست برخاست حرام ہے"۔
عتبہ اور عتیبہ نے باپ کے حکم کی تکمیل کی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رقیہ کا نکاح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے کردیا۔
نکاح کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت رقیہ کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی ان کے ہاں وہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ جس کا نام عبداللہ تھا۔ عبداللہ نے اپنی ماں کے بعد چار ہجری میں چھ برس کی عمر میں وفات پائی۔ حضرت عثمان حبشہ سے مکہ آئے اور مکہ سے دونوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ ایام بدر میں حضرت رقیہ بیمار تھیں۔ اس لئے حضرت عثؓمان ان کی تیمارداری کے لیے غزوہ بدر میں شامل نہ ہوئے۔ جس روز حضرت زید بن حارثہ فتح کی بشارت لے کر مدینہ میں آئے، اسی روز حضرت رقیہ نےبیس سال کی عمر میں انتقال فرمایا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوہَ بدرکے سبب جنازہ میں شریک نہ ہو سکے۔
-:حضرت ام کلثوم
ام کلثوم کنیت کے ساتھ ہی مشہور ہیں۔ پہلے عتیبہ بن ابی لہب کے نکاح میں تھیں۔ جب عتیبہ نے ان کو اپنے باپ کے کہنے سے طلاق دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گستاخی سے پیش آیا۔ حضورﷺ کی قمیض پھاڑ دی۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا۔ "یا اللہ اپنے کتوں میں سے ایک کتے کو اس پر مسلط کردے"۔ کچھ مدت بعد ابولہب اور عتیبہ بغرض تجارت ایک قافلہ کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک راہب کے صومعہ کے پاس اترے۔ راہب نے کہا کہ یہاں درندے بہت ہیں۔ ابو لہب نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تمہیں میری عمر اور میرا حق معلوم ہے؟ وہ بولے کہ ہاں۔ ابولہب نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے بیٹے پر بد دعا کی ہے۔ تم اپنی متاع صومعہ پر جمع کردو اور عتیبہ کے لیے اس کے اوپر بستر کردو اور خود اس کے گرد اگرد سو جاؤ۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ رات کو ایک شیر آیا۔ اس نے سب کو سونگھا۔ پھر متاع پر کود کر عتیبہ کو پھاڑ ڈالا۔ اہل قافلہ نے ہر چند کو تلاش کیا مگر نہ ملا۔
حضرت رقیہ کے بعد ربیع الاول ۳ھ میں ام کلثوم کا نکاح حضرت عثؓمان غنی سے ہوا۔ اور شعبان ۹ھ میں انتقال ہوا. حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی.
-:حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا
فاطمہ نام، زہرا اور بتول لقب ہیں۔ جمال و کمال کے سبب سے زہرا کہلاتی تھیں۔ اور ماسوا سے انقطاع کی وجہ سے بتول تھیں۔ بعثت کے پہلے سال یا بعثت سے ایک سال پہلے یا پانچ سال پہلے بنا بر اختلاف روایات پیدا ہوئیں۔ ہجرت کے دوسرے سال حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا نکاح حضرت علی مرتضیٰ سے کر دیا۔ آپ نے حضرت علی سے پوچھا کہ اداۓ مہر کے واسطے تمہارے پاس کچھ ہے۔۔؟ حضرت علی نے جواب دیا کہ گھوڑا اور ذرہ ہے۔ فرمایا کہ گھوڑا جہاد کے لیے ضروری ہے ذرہ کو فروخت کر ڈالو، چنانچہ وہ ذرہ حضرت عثمان غنی نے 480 درہم کو خریدی۔ حضرت علی نے قیمت لا کر حضورﷺ کےآگےڈال دی۔ حضورﷺ نے اس میں سےکچھ بلال کو دیا کہ خوشبو خریدلائیں اور باقی جہیز وغیرہ کے لیے اُمِّ سلیم کے حوالہ کیا۔ اس طرح عقد ہو گیا۔ جہیز میں یہ چیزیں تھیں۔ ایک لحاف، ایک چمڑے کا تکیہ جس میں درخت خرما کی چھال بھری ہوئی تھی، دو چکیاں، ایک مشک، دو گھڑے۔ اس سال ماہ ذوالحجہ میں رسم عروسی ادا کی گئی۔ حضرت علی المرتضی نے ادائے رسم کے لئے مکان کرایہ پر لیا۔ پھر حضرت حارث بن نعمان نے دے دیا۔
حضورﷺ کو اپنے اہل میں فاطمہ سب سے پیاری تھیں۔ جب سفر پرجایا کرتے تو اخیر میں فاطمہ سے مل کر جاتے۔ جب واپس
آتے تو سب سے پہلے فاطمہ سے ملتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے۔۔! "فاطمہ میرا پارہ گوشت ہے۔ جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا"۔
فاطمہ ہی کی نسبت حضور کا اشارہ ہے۔
خیرٌ نِساء هٰذه الا مة سیدة نسآء العا لمین سید النساء اہل الجنة سیدة النساء المومنین افضل النساء الجنة
"صاحبزادیوں میں صرف "حضرت فاطمہ زہرہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلسلہ نسل جاری ہے اور قیامت تک رہے گا"
حضرت فاطمہ کو گھر کا تمام کام کرنا پڑتا تھا ایک روز خبر لگی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لونڈی غلام آئے ہیں۔ اس لیے وہ ایک خادمہ کی درخواست کرنے کے لئے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دولت خانہ میں آئیں۔ آخر کار بارگاہ رسالت سے جو جواب ملا اس کا ذکر پہلے آچکا ہے۔
خانگی معاملات میں بعض دفعہ حضرت علی او فاطمہ میں رنجش ہو جایا کرتی تھی۔ تو حضور علیہ السلام دونوں میں مصالحت کروا دیا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک روز کا ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم حضرت فاطمہ کے دولت خانہ میں تشریف لے گئے وہاں حضرت علی کو نہ پایا۔ آپﷺ نے حضرت فاطمہ سے پوچھا کہ میرے چچا کا بیٹا کہاں ہے۔۔؟ انہوں نےجواب دیا کہ ہم دونوں میں کچھ ان بن ہو گئی ہے وہ ناراض ہو کر نکل گئے ہیں اور میرے ہاں قیلولہ نہیں فرمایا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا کہ دیکھو تو کہاں ہیں؟ اس نے آکر عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم مسجد میں سوئے ہوئے ہیں۔ حضرت مسجد میں تشریف لے گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ وہ پہلو کے بل لیٹے ہوئے ہیں۔ چادر پہلو سے گری ہوئی ہے اور خاک آلود ہو رہے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم خاک جھاڑنے لگے اور فرمایا۔ اے ابو تراب۔۔! اٹھ بیٹھ ۔ اس حدیث کے راوی حضرت سہل بن سعد بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی کو اس نام سے پیارا کوئی نام نہ تھا۔ صحیحین
فتح مکہ کے بعد حضرت علی نے ابوجہل کی لڑکی سے نکاح کرنا چاہا۔ حضرت فاطمہ زہراء نے سنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگیں۔ "آپﷺ کی قوم کہتی ہے کہ آپ اپنی صاحب زادیوں کےلئے ناراض نہیں ہوتے۔ یہ دیکھیے کہ علی ابوجہل کی لڑکی سے نکاح کرنے لگے ہیں" یہ سن کرآپﷺ نےفرمایا۔ "اما بعد میں نےابوالعاص سے اپنی بیٹی کا نکاح کردیا۔ اس نےمجھ سے بات کہی اور سچ کر دکھائی ۔ مجھ سے وعدہ کیا اور پورا کیا۔ فاطمہ میرا گوشت پارہ ہے۔ میں پسند نہیں کرتا کہ اسے تکلیف پہنچے۔ اللہ کی قسم رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لڑکے اور دشمن خدا کی لڑکی ایک شخص کے ہاں جمع نہ ہوں گی" یہ سن کر حضرت علی نے خواستگاری چھوڑ دی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال شریف کے بعد حضرت فاطمہ کبھی ہنستی نہ دیکھی گئیں۔ اوروصال شریف کے چھ ماہ بعد تین رمضان گیارہ ہجری (۱۱ھ) میں انتقال فرما گئیں۔ حضرت عباس نے نماز جنازہ پڑھائی۔ بقیع میں رات کے وقت دفن ہوئیں۔ حضرت علی و عباس و فضل نے قبر میں اتارا۔ زہرہ کی اولاد تین لڑکے اور تین لڑکیاں تھیں۔ امام حسن و امام حسین جو اہل جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ محسن ورقیہ جو بچپن میں انتقال کرگئے۔ اُمِّ کلثوم جن کی شادی حضرت عمر فاروق سے ہوئی۔ حضرت زینب جن کا نکاح عبداللہ بن جعفر سے ہوا۔ ان میں سےسوائے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے کسی سے نسل نہیں رہی۔
-:حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ
حضرت خدیجۃ الکبریٰ کی اولاد میں یہ سب سے چھوٹے ہیں۔ بعثت کے بعد پیدا ہوئے۔ اور بچپن میں ہی انتقال فرماگئے۔ طیب و طاہر انہی کے لقب ہیں۔
-:حضرت ابراہیم علیہ السلام
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے آخری اولاد ہیں۔ ذالحجہ ۸ھ میں مقام عالیہ میں جہاں ان کے والدہ حضرت ماریہ قبطیہ رہا کرتے تھیں پیدا ہوئے۔ اسی سبب سے عالیہ کو مشربہ ابراہیم بھی کہنے لگے تھے۔ ابو رافع کی بیوی سلمہ نے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا آپﷺ کی پھوپھی صفیہ کی لونڈی تھیں۔ دایہ گری کی خدمت انجام دی۔ جب ابو رافع کو ایک غلام عطا فرمایا۔ ساتویں دن عقیقہ دیا۔ اور سر کے بالوں کے برابر چاندی خیرات کی۔ اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے نام پر ابراہیم نام رکھا۔
دودھ پلانے کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابراہیم کو ام سیف کے حوالہ کیا۔ ام سیف کا شوہر ابوسیف لوہار تھا۔ حضرت انؓس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابراہیم کو دیکھنے کےلئے عوالی مدینہ تشریف لے جایاکرتے تھے۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہوا کرتےتھے۔ حضورﷺ ابراہیم کو گود میں لے کر چومہ کرتے، گھردھوئیں سےپُرہواکرتا۔ بعض دفعہ میں پیشتر پہنچ کر ابوسیف کو اطلاع کردیتا کہ رسول اللہﷺ تشریف لا رہے ہیں۔ دھواں نہ کرو۔ یہ سن کر ابوسیف اپنا کام بند کر دیتے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ام سیف ہی کے ہاں انتقال فرمایا۔ حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر ہوئی کہ ابراہیم حالت نزع میں ہے۔ اس وقت عبدالرحمن بن عوف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ساتھ لے کر وہاں پہنچے، دیکھا کہ نزع کی حالت ہے۔ گود میں اٹھا لیا، آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ عبدالرحمٰن نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسا کرتے ہیں! فرمایا، ابن عوف! یہ رحمت و شفقت (میت پر) ہے۔ پھر فرمایا، "ابراہیم ہم تیری جدائی سے غمگین ہیں۔ آنکھیں اشکبار ہیں۔ دل غمگین ہے ہم وہی کہتے ہیں جس سے ہمارا رب راضی ہو"۔
چوٹی سے چارپائی پر جنازہ اٹھایا گیا۔ بقیع میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت عثمان بن مظعون کی قبرکے متصل دفن ہوئے۔ فضل و اسامہ نے قبر میں اتارا۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبر کے کنارے کھڑے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد سے ایک انصاری پانی کی مشک لایا اور قبر پر چھڑک دیا۔ اور شناخت کے لیے ایک نشان قائم کیا گیا، جیسا حضرت عثمان کی قبر پر کیا گیا تھا۔ حضرت ابراہیم کی عمرحسب روایت حسب روایت صحاح ۱۷ یا ۱۸ماہ تھی۔
- Get link
- X
- Other Apps
Comments
Post a Comment
jazak Allah..