Wiladat e Muhammad ﷺ
Wiladat e Muhammad ﷺ
تولد شریف:۔
جب حمل شریف کو چاند کے حساب سے پورے نو مہینے ہو گئے تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم 12 ربیع الاول کو دو شُنبہ کے دن فجر کے وقت کے ابھی بعض ستارے آسمان پر نظر آرہے تھے پیدا ہوئے۔ دونوں ہاتھ زمین پر رکھے ہوئے۔ سر آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے (جس سے آپ اپنے علو مرتبہ کی طرف اشارہ فرما رہے تھے) بدن بالکل پاکیزہ اور تیز بٗو کستوری کی طرح خوشبودارختنہ کیے ہوئے، ناف بریدہ، چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح نورانی، آنکھیں قدرت الٰہی سے سرمگیں، دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت درخشاں۔۔ آپ کی والدہ نے آپ کے دادا عبدالمطلب کو جو اس وقت خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے بلاوا بھیجا۔۔ وہ حضرت کو دیکھ کر کر بہت خوش ہوئے اور بیت اللہ شریف میں لے جاکر آپ کے لئے صدق دل سے دعا کی اور اللہ تعالی کی اس نعمتِ عظمیٰ کا شکر ادا کیا آپ کے چچا ابو لہب کی لونڈی ثَوَیْبَہ نے ابولہب کوتولد شریف کی خبر دی تو اس نے اس خوشی میں ثَوَیْبَہ کو آزاد کر دیا۔ حضرت جس مہینے میں پیدا ہوئے اس کا نام تو ربیع تھا ہی مگر وہ موسم بھی ربیع بہار کا تھا۔۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے:۔
ربیع، فی ربیع، فی ربیع۔۔۔۔۔۔۔۔۔و نور فوق نورفوق نور
تولد شریف کی خوشی کا ثمرہ:۔
ابولہب کی موت کے ایک سال بعد حضرت عباس نے خواب میں ابولہب کو برے حال میں دیکھا۔ پوچھا تجھے کیا ملا۔۔؟ ابولہب
نے جواب دیا: لم الق بعد کم غیر انّی سقیت فی ھٰذہ بعتاقتی ثویبہ
"تمہارے بعد مجھے کچھ آرام نہیں ملا سوائے اس کے کہ ثویبہ کو آزاد کرنے کے سبب سے بمقدار اس (مغاک میان ابہام وسبابہ) کےپانی مل جاتاہےجسےمیں پی لیتا ہوں۔"
اس حدیث عمرو بن زبیر کا مطلب یہ ہے کہ ابولہب بتا رہا ہے کہ میرے اعمال رائیگاں گئے۔ سوائے ایک کے اور وہ یہ ہے کہ میں نے حضرت کی ولادت کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کر دیا تھا۔ اس کا فائدہ رہ گیا۔۔ اور وہ یہ ہے کہ اس کے بدلے ہر دو شنبہ کو ابہام وسبابہ کے درمیانی مغاک کی مقدار میں پانی مل جاتا ہے جسے میں انگلیوں سے چوس لیتا ہوں اور عذاب میں تخفیف ہوجاتی ہے۔
یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات سے ہے۔ ورنہ کافر کا کوئی عمل فائدہ نہ دے گا۔ فقیر توکلی گزارش کرتا ہے کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تولد شریف پر خوشی منانے سے ایک کافر کو یہ فائدہ پہنچا تو قیاس کیجیے کہ ایک مسلمان جو ہر سال میلا د شریف کرواتا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تولد شریف پر خوشیاں مناتا اس دارِ فانی سے رخصت ہو جائے تو اسے کس قدر فائدہ پہنچے گا ۔
تولد شریف کے وقت خوارق:۔
تولد شریف کے وقت غیب سے عجیب و غریب اور خارق عادت امور ظاہر ہوئے۔ تاکہ آپ کی نبوت کی بنیاد پڑ جائے۔ اور لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ آپ اللہ تعالی کے برگزیدہ اور پسندیدہ ہیں۔ اور ان کے نورسےحرم شریف کی پست زمین اور ٹیلے روشن ہوگئے۔ آپ کے ساتھ ایسا نور نکلا کہ مکہ مشرفہ کے رہنے والوں کو ملک شام کے قیصری محل نظر آ گئے۔ شیاطین پہلے آسمانوں پر چلے جاتے اور کاہنوں کو بعض مغیبات کی خبر دیتے تھے اور وہ لوگوں کو کچھ اپنی طرف سے ملا کر بتا دیا کرتے تھے اب آسمانوں میں ان کا آنا جگہ بند کر دیا گیا۔ اور اس کی حفاظت شہاب ثاقب سے کر دی گئی۔ اس طرح وحی وغیروحی میں خلط ملط ہو جانے کا اندیشہ جاتارہا۔ شہر مدائن میں محل کسریٰ پھٹ گیا، اور اس کے چودہ کنگرے گر پڑے۔ اس میں اشارہ تھا کہ موجودہ حکمرانوں کے بعد ملک فارس خادمانِ اسلام کے قبضہ میں آجائے گا۔ فارس کے آتش کدے ایسے سرد پڑ گئے کہ ہر چند ان میں آگ جلانے کی کوشش کی جاتی تھی مگر نہ جلتی تھی بحیرہ ساوہ جوہمدان وقم کے درمیان چھ میل لمبا اور اتنا ہی چوڑا تھا اور جس کے کناروں پر شرک و بت پرستی ہوا کرتی تھی یکایک بالکل خشک ہو گیا۔ وادی ساوہ(شام وکوفہ کےدرمیان) کی ندی جوبالکل خشک پڑی تھی لبالب بہنےلگی۔
رضاعت:۔
آنحضرتﷺ کو آپ کی والدہ ماجدہ نے کئی دن دودھ پلایا۔ پھر ابو لہب کی آزاد کی ہوئی لونڈی ثویبہ نے چند روز ایسا ہی کیا۔ بعد ازاں حلیمہ سعدیہ نے یہ خدمت اپنے ذمہ لی۔ قریش میں دستو رتھا کہ شہر کے لوگ اپنے شیر خوار بچوں کو بدوی آبادی میں بھیج دیا کرتے تھے تاکہ بچے بدووَں میں پل کر فصاحت اور عرب کی خالص خصوصیات حاصل کریں اور مدت رضاعت کے ختم ہونے پر عوضانہ دے کر واپس لے آتے تھے۔ اس لئے نواحِ مکہ کے قبائل کی بدوی عورتیس سال میں دو دفعہ ربیع اور خریف میں بچوں کی تلاش میں شہر مکہ میں آیا کرتی تھیں۔ چنانچہ اس دفعہ قحط سالی میں حلیمہ سعدیہ اپنے قبیلہ کی دس عورتوں کے ساتھ اسی غرض سے شہر میں آئی۔ حلیمہ کے ساتھ اس کا شیر خوار بچہ عبداللہ نام، اس کا شوہر حارث بن عبد العزی سعدی، ایک دراز گوش اور ایک اونٹنی تھی۔ بھوک کے مارے نہ اونٹنی ایک دودھ کا ایک قطرہ دیتی تھی۔ اورنہ حلیمہ کی چھاتیوں میں کافی دودھ تھا۔ اس لئے بچہ بے چین رہتا تھا۔ اور رات کو اس کے رونے کی وجہ سے میاں بیوی سوبھی نہ سکتے تھے۔ اب قسمت جاگی توحلیمہ کوجو شرف و کمال میں مشہور تھی۔ ایسا مبارک رضیع مل گیا کہ ساری زحمت کافور ہوگئی۔ دیکھتے ہی دائیں چھاتی سے لگا لیا۔ دودھ نےجوش مارا۔ حضرت نےپیا اور بائیں چھاتی چھوڑ دی۔ جس سے حلیمہ کے بچےنےپیا۔ اس کے بعد بھی ایسا ہی ہوتا رہا۔ یہ عدل جبلی کا نتیجہ تھا۔ ڈیرے پر پہنچی تو پھر دونوں بچوں نے سیر ہو کر دودھ پیا۔ حارث نے اٹھ کر اونٹنی کو جو دیکھا تو اس کے تھن دودھ سے بھرے ہوئے تھے۔ جس سے میاں بیوی نےسیر ہوگئے اور رات آرام سےکٹی۔ اس طرح تین راتیں مکہ میں گزار کر حضرت آمنہ کو وداع کر دیا گیا اور حلیمہ اپنے قبیلہ کو آئی۔ اس نے حضرت کو اپنے آگے دراز گوش پر سوار کر لیا دراز گوش نے پہلے کعبہ کی طرف تین سجدے کر کے سر آسمان کی طرف اٹھایا گویا شکریہ ادا کیا۔ کہ اس سے یہ خدمت لی گی۔ پھر روانہ ہوئی۔ اور حضرت کی برکت سے ایسی چست و چالاک بن گئی کہ قافلہ کے سب چوپایوں سے آگے چل رہی تھی۔ حالانکہ جب آئی تھی توکمزوری کے سبب سے سب سے پیچھے رہ جاتی تھی۔ ساتھ کی عورتیں حیران ہو کر پوچھتیں تھیں ابُّو ذویب کی بیٹی ! کیا یہ وہی دراز گوش ہے۔۔؟ حلیمہ جواب دیتی، واللّٰہ یہ وہی ہے بنو سعد میں اس وقت سخت قحط تھا۔ مگر حضرت کی برکت سے حلیمہ کے مویشی سیر ہو کر آتے اور خوب دودھ دیتے۔ اور دوسروں کے مویشی بھوکےآتے اور دودھ کا ایک قطرہ بھی نہ دیتے۔ اس طرح حلیمہ کی سب تنگ دستی دور ہو گی.
حضرت حلیمہ آپ کو کسی دور جگہ نہ جانے دیتی تھی۔ ایک روز وہ غافل ہوں گی۔ اور حضرت اپنی رضاعی بہن شیماء کے ساتھ دوپہر کے وقت بھیڑوں کے ریوڑ میں تشریف لے گئے مائی حلیمہ تلاش میں نکلی۔ اور آپ کو شیماء کے ساتھ پایا۔ کہنے لگی ایسی تپش میں۔۔؟ شیماء بولی : اماں جان میرے بھائی نے تپش محسوس نہیں کی۔ بادل آپ پر سایہ کرتا تھا۔ جب آپ ٹھہر جاتے تو بادل بھی ٹھہر جاتا جب آپ چلتے تو بادل بھی ساتھ چلتا۔
یہی حال رہا یہاں تک کہ ہم اس جگہ آ پہنچے ہیں۔
جب حضرت دو سال کے ہوگئے تو مائی حلیمہ نے آپ کا دودھ چھڑادیا۔ اور آپ کو آپ کی والدہ کے پاس لے کر آئی اور کہا۔ کاش تو اپنے بیٹے کو میرے پاس اور رہنے دے تاکہ قوی ہو جائے۔ کیونکہ مجھے اس پر وبائے مکہ کا ڈر ہے۔ یہ سن کر بی بی آمنہ نے آپ کو حلیمہ کے ساتھ واپس کردیا۔ حلیمہ کا بیان ہے کہ ہمیں واپس آئے دو یا تین مہینے گزرے تھے کہ ایک روز حضرت اپنے رضاعی بھائی عبداللہ کے ساتھ ہمارے گھروں کے پیچھے ہماری بھیڑوں میں تھے کہ آپ کا بھائی دوڑتا آیا کہنے لگا کہ میرے اس قریشی بھائی کے پاس دو شخص آئے جن پر سفید کپڑے ہیں۔ انہوں نے پہلو کے بل لٹا کر اس کا پیٹ پھاڑ دیا۔ یہ سن کر میں اور میرا خاوند دوڑے گئے۔ دیکھا کہ آپ کھڑے ہیں چہرے کا رنگ بدلا ہوا ہے۔ ہم دونوں آپ کے گلے لپٹ گئے اور پوچھا، بیٹا تجھے کیا ہوا۔۔؟ آپ نے بیان کیا کہ دو شخص میرے پاس آئے جن پر سفید کپڑے تھے۔ انہوں نے پہلو کے بل لٹا کر میرا پیٹ پھاڑ دیا اور اس میں سے ایک خون کی پھٹکی نکال کر کہا: ھَذَا حَظُّ الشَیْطٰنِ مِنْکَ (یہ تجھ سے شیطان کا حصہ ہے) پھر اسے ایمان و حکمت سے بھر کرسی دیا۔ پھر ہم آپ کو اپنے خیمہ میں لے آئے۔ میرے خاوند نے کہا، حلیمہ۔۔! مجھے ڈر ہے اس لڑکے کو کچھ آسیب ہے۔ آسیب ظاہر ہونے سے پہلے اسے اس کےکُنبے چھوڑآ۔۔ میں آپ کو آپ کی والدہ کے پاس لائی اور بڑے اصرار کے بعد اس سے حقیقت حال بیان کی۔ ماں نے کہا: اللہ کی قسم ان پر شیطان کو دخل نہیں۔ میرے بیٹے کی بڑی شان ہے۔
تعدّد شقِّ صدر:۔
واضح رہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شقِ صدر چار مرتبہ ہوا ہے۔ ایک وہ جس کا ذکر اوپر ہوا۔ یہ اس واسطے تھا کہ حضور انور وساوس شیطان سے جن میں بچے مبتلا ہوا کرتے ہیں محفوظ رہیں۔ اور بچپن ہی سے اخلاقِ حمیدہ پرپرورش پائیں۔ دوسری مرتبہ دس برس کی عمر میں ہوا تا کہ آپ کامل ترین اوصاف پر جوان ہوں۔ تیسری مرتبہ غارِ حرا میں بعثت کے وقت ہوا تاکہ آپ وحی کے بوجھ کو برداشت کر سکیں۔ چوتھی مرتبہ شبِ معراج میں ہوا تاکہ آپ مناجاتِ الٰہی کے لئے تیار ہو جائیں۔
حضرت آمنہ کی وفات :۔
حضرت کی عمر مبارک چھ سال کی ہوئی تو آپ کی والدہ آپ کو ساتھ لے کر مدینہ میں آپ کے دادا کے ننہال بنو عدی بن نجار میں ملنے گئیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اپنے شوہر کی قبر کی زیارت کے لئے گئیں تھیں۔ اُمِّ ایمن بھی ساتھ تھیں۔ جب واپس آئی تو راستے میں مقام ابواء میں انتقال فرما گئیں اور وہیں دفن ہوئیں۔ ہجرت کے بعد جب حضرت کا گزربنونجار پر ہوا تو اپنے قیام مدینہ کا نقشہ سامنےآگیا اور اپنے قیام گاہ کو دیکھ کر فرمایا۔ "اس گھر میں میری والدہ مکرمہ مجھے لے کر ٹھری تھیں۔ میں بنی عدی بن نجار کے تالاب میں تیرا کرتا تھا" ۔
( مواہب لدنیہ)
عبدالمطلب و ابو طالب کی کفالت:۔
اُم ایمن حضرت کومکہ میں لائیں، اور آپ کے دادا عبدالمطلب کے حوالہ کیا۔ عبدالمطلب آپ کی پرورش کرتا رہا۔ مگر جب آپ کی عمر مبارک آٹھ سال کی ہوئی تو اس نے بھی وفات پائی اور حسب وصیت آپ کا چچا ابوطالب جوحضرت علی کا باپ اور آپ کے والد عبداللہ کا ماں جایا بھائی تھا۔ آپ کی تربیت کا کفیل ہوا۔ ابو طالب نے آپ کی کفالت کو بہت اچھی طرح انجام دیا۔ اور
آپ کو اپنی ذات اور بیٹوں پر مقدم رکھا۔
طفولیت میں حضرت کی دُعاء سے نزولِ باراں:۔
ایک دفعہ ابوطالب نے حضرت کو ساتھ لے کر بارش کے لئے دعا کی تھی جو حضور کی برکت سے فوراً قبول ہوئی تھی۔ چنانچہ ابن عساکرجہلمہ بن عرفطہ سے ناقل ہے کہ اس نے کہا کہ میں مکہ میں آیا۔ اہلِ مکہ قحط میں مبتلہ تھے۔ ایک بولا کہ لات و عزّٰی کے پاس چلو۔ دوسرا بولا کے منات کے پاس چلو۔ یہ سن ایک خوبرو جید الرائے بوڑھے نے کہا تم کہاں الٹے جا رہے ہو۔ حالانکہ ہمارے درمیان باقیہ ابراہیم وسلالہ اسماعیل موجود ہے۔ وہ بولے کیا تمہاری مراد ابو طالب ہے۔۔؟ اس نے کہا: ہاں۔ پس وہ سب اٹھے اور میں بھی ساتھ ہو لیا۔ جا کر دروازے پر دستک دی ابوطالب نکلا تو کہنے لگے: ابوطالب۔۔! جنگل قحط زدا ہوگیا۔ ہمارےزن و فرزند قحط میں مبتلا ہیں۔ چل مینہ مانگ" ۔ پس ابو طالب نکلا اس کے ساتھ ایک لڑکا تھا ۔گویا آفتاب تھا۔ جس سے ہلکا سیاہ بادل دور ہو گیا ہو۔ اس کے گرد اور چھوٹے چھوٹے لڑکے تھے۔ ابو طالب نے اس لڑکے کو لیا اور اس کی پیٹھ کعبہ سے لگائی۔ اس لڑکے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے التجا کرنے والے کی طرح اپنی انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ حالانکہ اس وقت آسمان پر کوئی بادل کا ٹکڑا نہ تھا۔ اشارہ کرنا تھا کہ چاروں طرف سے بادل آنے لگے۔ برسا اور خوب برسا جنگل میں پانی ہی پانی نظر آنے لگا، اور آبادی و وادی سب سرسبزوشاداب ہوگئے۔
:اسی بارے میں ابو طالب نے کہا ہے:
وابیض یستقی الغمام بوجھہ۔۔۔۔۔۔ثمال الیتمیٰ عصمۃ للارامل
"اور گورے رنگ والے جن کی ذات کے وسیلے سے نزولِ باراں طلب کیا جاتا ہے۔ یتیموں کےملجاوماوی۔۔رانڈوں اور درویشوں کے نگہبان۔"
بعثت کے بعد جب قریش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ستا رہے تھے تو ابو طالب نے ایک قصیدہ لکھا تھا جو سیرت ابنِ ہشام میں دیا ہوا ہے۔ شعرمزکورہ اس قصیدہ میں سے ہے۔ اس شعر میں ابوطالب قریش پر بچپن سے حضرت کے احسانات جاتا رہا ہے۔ اور گویا کہہ رہا ہے کہ ایسے قدیم بابرکت محسن کے درپے آزار کیوں ہو۔؟
مواہب و زرقانی
شام کا پہلا سفر:۔
جب حضرت کی عمر مبارک بارہ سال کی ہوئی تو ابوطالب حسبِ معمول قافلہ قریش کے ساتھ بغرض تجارت ملک شام کو جانے لگا۔ یہ دیکھ کر آپ اس سے لپٹ گئے۔ اس لیے اس نے آپ کو بھی ساتھ لے لیا۔ جب قافلہ شہر بُصریٰ میں پہنچا تو وہاں بحیرا راہب نے آپ کو دیکھ کر پہچان لیا۔ اور آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا، یہ سارے جہان کا سردار ہے۔ رب العالمین کا رسول ہے۔ اللہ اس کو تمام جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گا۔ قریشیوں نے پوچھا تجھے یہ کیوں کر معلوم ہوا۔ اس نے کہا کہ جس وقت تم گھاٹی سے چڑھے کوئی درخت اور پتھر باقی نہ رہا مگر سجدے میں گر پڑا۔ درخت اور پتھر پیغمبر کے سوا کسی دوسرے شخص کو سجدہ نہیں کرتے۔ اور میں ان کو مہر نبوت سے پہچانتا ہوں جو ان کے شانے کی ہڈی کے نیچے سیب کی مانند ہے۔ پھر اس راہب نے کھانا تیار کیا۔ جب وہ ان کے پاس کھانا لایا تو حضرت اونٹوں کے چرانے میں مشغول تھے۔ اس نے کہا، آپﷺ کو بلا لو۔ آپ آئے تو بادل نے آپ پر سایہ کیا ہوا تھا ۔ جب آپ قوم کے نزدیک آئے تو ان کو درخت کے سایہ کے طرف آگے بڑھے ہوئے پایا جس وقت آپ بیٹھ گئے تو درخت کا سایہ آپ کی طرف ہٹ آیا۔ پھر کہا۔۔: تمہیں خدا کی قسم بتاوَ ان کا ولی کون ہے۔۔؟ انہوں نے کہا ابوطالب۔ پس اس نے ابو طالب سے بتا کے تمام کہا کہ ان کو مکہ واپس لے جاؤ۔ کیونکہ اگر تم آگے بڑھو گے تو ڈر سے کہیں یہودی ان کو قتل کر دیں۔ لہذا ابوطالب آپ کو واپس لے آیا۔ اور شہرِ بُصریٰ سے آگے نہ بڑھا اور اس راہب نے حضرت کو خشک روٹی اور زیتون کا تیل زادِ راہ دیا۔
حربِ فجار میں شرکت:۔
آغاز اسلام سے پہلے عرب میں جو لڑائیاں ان مہینوں میں پیش آئی تھیں جن میں لڑنا ناجائز تھا، حروبِ فجار کہلاتی تھیں۔
چوتھی یعنی اخیرحربِ فجار میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی شرکت فرمائی تھی۔ اس جنگ کا سبب یہ تھا کہ نعمان بن منزرشاہ حیرہ ہر سال اپنا تجارتی مال بازار عکاظ میں فروخت ہونے کے لئے اشراف عرب میں سے کسی کی پناہ میں بھیجا کرتا تھا۔ اس دفعہ جو اس نے اونٹ لدوا کر تیار کئے۔ اتفاقاً عرب کی ایک جماعت اس کے پاس حاضر تھی جن میں بنی کنانہ میں سے براض اور ہوازن میں سے عروہ رحال موجودہ تھا۔ نعمان نے کہا: اس قافلہ کو کون پناہ دے گا؟ براض بولا: میں بنی کنانہ سے پناہ دیتا ہوں۔ نعمان نے کہا میں ایسا شخص چاہتا ہوں کہ جو اہلِ نجد تہامہ سے پناہ دے۔ یہ سن کرعروہ نے کہا: اکلب خلیع یجیر ھالک میں اہل نجد و تہامہ سے پناہ دیتا ہوں، براض نے کہا اےعروہ کیا تو بنی کنانہ سے پناہ دیتا ہے؟ عروہ نے کہا: تمام مخلوق سے۔ پس عروہ اس قافلہ کے ساتھ نکلا۔ براض بھی اس کے پیچھے روانہ ہوا۔ اور موقع پا کر عروہ کو ماہِ حرام میں قتل کر ڈالا۔ ہوازن نے قصاص میں براض کو قتل کرنے سے انکار کیا۔ کیوں کہ عروہہ ہوازن کا سردار تھا۔ وہ قریش کے کسی سردار کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ مگر قریش نے منظور نہ کیا۔ اس لیے قریش وکنانہ اورہوازن میں جنگ چھڑ گئی۔ کنانہ کا سپہ سالار اعظم حرب بن امیہ تھا۔ جو ابوسفیان کا باپ اور حضرت امیر معاویہ کا دادا تھا۔ اور ہوازن کا سپہ سالار اعظم مسعود بن معتب ثقفی تھا۔ لشکر کنانہ کے ایک پہلو پر عبداللہ بن جدعان اور دوسرے پر کریز بن ربیعہ اور قلب میں حرب بن امیہ تھا۔ اس جنگ میں کئی لڑائیاں ہوئیں۔ ان میں سے ایک میں حضرت کے چچا آپ کو بھی لے گئے۔ اس وقت آپ کی عمر مبارک چودہ(14) سال کی تھی۔ مگر آپ نے خود لڑائی نہیں کی۔ بلکہ تیر اٹھا اٹھا کر اپنے چچاؤں کو دیتے رہے چنانچہ فرماتے ہیں: وکنت انبل علٰی اعمامی بعضے کہتے ہیں آپ نے بھی تیر پھینکے تھے بہرحال اخیر میں فریقین میں صلح ہو گئی۔
حلف الفضول میں شرکت:۔
جب قریشی حربِ فجار سے واپس آئے تو یہ واقعہ پیش آیا۔ کہ شہر زبیر کا ایک شخص اپنے مالِ تجارت مکہ میں لایا جسے عاص بن وائل سہمی نے خرید لیا۔ مگر قیمت نہ دی۔ اس پر زبیری نے اپنے احلاف عبدالدار و مخزوم و جمح و سہم وعدی بن کعب سے مدد مانگی مگر ان سب نے مدد دینے سے انکار کیا۔ پھر اس نے جبل ابو قبیس پر کھڑے ہو کر فریاد کی۔ جسے قریش کعبہ میں سن رہے تھے۔ یہ دیکھ کر حضرت کے چچا زبیر بن عبدالمطلب کی تحریک پر بنو ہاشم زہرہ اور بنو اسد بن عبد العزیٰ سب عبد اللہ بن جدعان کے گھر میں جمع ہوئے۔ اور باہم عہد کیا کہ ہم ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کیا کریں گے۔ اور مظالم واپس کرا دیا کریں گے۔ اس کے بعد وہ سب عاص بن وائل کے پاس گئے اور ان سے زبیرہ کا مال واپس کرایا۔ اس معاہدہ کو حلف الفضول اس واسطے کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ اس معاہدے کے مشابہ تھا جو قدیم زمانہ میں جرہم کے وقت مکہ میں بریں مضمون ہوا تھا کہ ہم ایک دوسرے کی حق رسانی کیا کریں گے۔ اور قوی سے ضعیف کا اور مقیم سے مسافر کا حق لے کر دیا کریں گے۔ چونکہ جرہم کے وہ لوگ جو اس معاہدہ کے محرک تھے ان سب کا نام فضل تھا۔ جن میں فضل بن حارث اور فضل بن وداعہ اور فضل بن فضالہ تھے۔ اس لیے اس کو حلف الفضول سے موسوم کیا گیا تھا۔
اس معاہدہ قریش میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک تھے۔ اور عہد نبوت میں فرمایا کرتے تھے کہ اس معاہدے کے مقابلہ میں اگر مجھ کو سرخ رنگ کے اونٹ بھی دیے جاتے تو میں اسے نہ توڑتا۔۔
اور ایک روایت میں ہے کہ میں عبداللہ بن جدعان کے گھر میں ایسے معاہدے میں حاضر ہوا کہ اگر اس سے غیر حاضری پر مجھے سرخ رنگ کے اونٹ بھی دیتے جاتے تو میں پسند نہ کرتا۔ اور آج اسلام میں بھی اگر کوئی مظلوم یالِ حلف الفضول کہہ کر پکارے تو میں مدد دینے کو حاضر ہوں۔
شام کا دوسرا سفر:۔
جب حضرت کی عمر مبارک پچیس(25) سال کی ہوئی تو آپ کے صدق و امانت کا شہرہ دور دور تک پہنچ چکا تھا یہاں تک کہ زبان خلق نے آپ کو امین کا لقب دے دیا تھا۔ یہ دیکھ کر حضرت خدیجہ نے جو ایک معزز مالدار خاتون تھیں۔ آپ کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ میرا مال تجارت لے کر شام کو جائیں۔ جو معاوضہ میں اوروں کو دیتی ہوں آپ کو اس کا مضاعف دوں گی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمایا۔ اور مال تجارت لے کر شام کو روانہ ہوئے۔ حضرت خدیجہ کا غلام میسرہ آپ کے ساتھ تھا جو آپ کی خدمت کرتا تھا اور آپ کی ضروریات کا متکفل تھا۔ جب آپ شام میں پہنچے تو بازار بُصریٰ میں ایک راہب نسطورا نام کی خانقاہ کے نزدیک اترے۔ وہ راہب میسرہ کی طرف آیا اور اسے جانتا تھا۔ کہا: "اےمیسرہ۔۔! یہ کون ہے جو اس درخت کے نیچے اترا ہے۔" میسرہ نے کہا۔ اہل حرم میں سے قریش سے ہے راہب نے کہا۔ سوائے نبی کے اس درخت کے نیچے کبھی کوئی نہیں اترا۔ پھراس نے پوچھا۔ کیا اس کو دونوں آنکھوں میں سرخی ہے۔ میسرہ نے جواب دیا ہاں۔ اور کبھی دور نہیں ہوتی ہے۔ یہ سن کر راہب بولا: " یہ وہی ہیں اور یہی آخر الانبیاء ہیں۔ کاش میں ان کو پاؤں جس وقت یہ مبعوث ہوں گے۔" اور میسرہ سے کہا کہ "ان سے جدا نہ ہونا اور نیک نیتی سے ان کے ساتھ رہنا۔ کیونکہ اللہ تعالی نے ان کو نبوت کا شرف عطا کیا ہے۔" حضرت بازار بُصریٰ میں خرید و فروخت کر کے مکہ واپس آئے جب حضرت خدیجہ نے جو عورتوں کے درمیان ایک بالا خانے میں بیٹھی تھی آپ کو آتے ہوئے دیکھا تو دو فرشتے آپ کے سر مبارک پر دھوپ سے سایہ کئے ہوئے تھے میسرہ نے حضرت خدیجہ سے بیان کیا کہ میں نے تمام سفر میں آپ کا یہی حال دیکھا ہے۔ اور اس راہب کے قول و وصیت کی خبر دی۔ اللہ تعالی نے اس تجارت میں مضاعف نفع دیا۔ حضرت خدیجہ نے جو دیکھا اور سنا اس سے ظاہر ہو گیا کہ آپ بے شک ساری مخلوق کی طرف اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں.
حضرت خدیجہ سے نکاح:۔
اس وقت حضرت خدیجہ بیوہ تھیں ۔ان کی دو شادیاں ہوچکی تھیں۔ ان کی پاکدامنی کے سبب لوگ جاہلیت میں ان کو طاہرہ کا کرتے تھے۔ ان کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضرتﷺ کےخاندان سےملتا ہے۔ حضرت خدیجہ نےامورِ مزکورہ بالا کو مدنظر رکھ کر واپس آنے کے قریباً تین مہینے بعد یعلےبن منیہ کی بہن نفیسہ کی وساطت سے آپ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ آپ نے اس درخواست کی خبر اپنے چچاؤں کو دی۔ انہوں نے قبول کیا۔ بس تاریخ معین پر ابو طالب اور امیر حمزہ اور دیگر روسائے خاندان خدیجہ کے مکان پر گئے۔ اور ان کے چچا عمرو بن اسد نے اور بقول بعض ان کے بھائی عمرو بن خویلد نے ان کا نکاح کر دیا۔ شادی کے وقت ان کی عمر 40 سال کی تھی۔ ابو طالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا اور پانچ سو درہم مہر قرار پایا۔
یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی شادی تھی۔ حضرت خدیجہ کے انتقال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چند شادیاں اور کیں۔ تمام ازواج مطہرات کا مہر پانچ سو درہم ہی مقرر ہوا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد حضرت خدیجہ کے بطن سے ہوئی صرف ایک صاحبزادے جن کا نام ابراہیم تھا حضرت ماریہ قبطیہ کے بطن سے جو سنہ 8 ہجری میں پیدا ہوئے اور سنہ دس ہجری میں انتقال فرما گئے۔
تعمیر کعبہ:۔
جب حضرت کی عمر مبارک پینتیس سال کی ہوئی تو قریش نے کعبہ کو ازسرِ نو بنایا۔ علامہ ازرقی (متوفی ۲۲۳ھ) نے تاریخ مکہ میں لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پتھروں سے جو تعمیر کی تھی اس کا طول و عرض حسب ذیل تھا:
ارتفاع۹___گز
طول ( سامنے کی طرف) حجرہ اسود سے رکن شامی تک۔ ۲۳گز (۲۳ہاتھ)
عرض (میزاب شریف کی طرف) رکن شامی سے رکن غربی تک۔ ۲۲گز (۲۲ہاتھ)
طول (پچھواڑے کی طرف رکن غربی سے رکن یمانی تک۔ ۳۱گز (۳۱ ہاتھ )
عرض رکن یمانی سے حجرِا اسود تک ۲۰ گز____ (۲۰ ہاتھ )
اس عمارت کو حضرت ابراہیم علیہ السلام تعمیر کر رہے تھے۔ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے کندھے پر پتھرلاد کرلا رہے تھے۔ جب دیواریں اونچی ہوگئیں تو مقام پر کھڑے ہو کر کام کرتے رہے۔ جب حجرا اسود کی جگہ تک پہنچ گئے تو آپ نے حضرت اسماعیل سے فرمایا کہ ایک پتھر لاؤ۔ میں اسے یہاں نصب کر دوں تاکہ لوگ طواف یہاں سے شروع کیا کریں۔ حضرت اسماعیل پتھر کی تلاش میں گئے تو حضرت جبرائیل حجرااسود لے کر حاضر ہوئے۔ اس بِنا میں دروازہ سطح زمین کےبرابر تھا۔ مگر چوکھٹ بازو نہ تھے۔ نہ کواڑ تھے نہ چھت۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد عمالقہ وجر ہم وقصی نے اپنے اپنے وقت میں اس عمارت کی تجدید کی۔ چونکہ عمارت نشیب میں واقع تھی۔ وادی مکہ کی رووَں کا پانی حرم میں آ جاتا تھا۔ اس پانی کی روک کے لیے بالائی حصہ پر بند بھی بنوا دیا گیا تھا۔ مگر وہ ٹوٹ جاتا تھا۔ اس دفعہ ایسے زور کی رو آئی کہ کعبہ کی دیواریں پھٹ گئیں۔ اس لئے قریش نے پرانی عمارت کو ڈھا کر نئے سرے سے مضبوط و مسقّف بنانے کا ارادہ کیا۔ حسن اتفاق یہ کہ ایک رومی تاجر باقول کا جہاز ساحل جدہ پر کنارے سے ٹکرا کر ٹوٹ گیا۔ باقوم مذکور معمارو نجار بھی تھا۔
قریش کوجب خبر لگی تو ولید بن مغیرہ چند اور قریشیوں کے ساتھ وہاں پہنچا۔ اس نے چھت کے لئے جہاز کے تختے مول لے لیے۔ اورباقوم کو ساتھ لے آیا۔ دیواروں کے لیے قریش کے ہر ایک قبیلہ نے الگ الگ پتھر ڈھونے شروع کیئے۔ مرد دو دو مل کر دور سے پتھروں کو کندھوں پر اٹھا کر لاتے تھے۔ چنانچہ اس کام میں حضرت اپنے چچا عباس کے ساتھ شریک تھے۔ اور کوہِ صفا کے متصل ایجاد سے پتھر لا رہے تھے۔
جب سامان عمارت جمع ہوگیا تو ابو وہب بن عمرو بن عائد مخزومی کے مشورے سے قبائل قریش نے تعمیر کے لئے بیت اللہ کی چاروں طرفیں آپس میں تقسیم کر لیں۔ ابوہہب مذکورحضرت کے والد ماجد عبداللہ کا ماموں تھا۔ اس نے قریش سے کہا تھا کہ کعبہ کی تعمیر میں کسب حلال کی کمائی کے سوا اور مال صرف نہ کیا جائے۔ جب عمارت حجرہ اسود کے مقام تک پہنچ گئی تو قبائل میں سخت جھگڑا پیدا ہوا۔ ہر ایک قبیلہ چاہتا تھا کہ ہم ہی حجرا اسود کو اٹھا کر نصب کریں گے۔ اسی کشمکش میں چار دن گزر گئے اور تلواروں تک نوبت پہنچ گئی۔ بنو عبدالدار اور بنو عدی بن کعب نے تو اس پر جان دینے کی قسم کھائی اور حسب دستور اس حلف کی تاکید کے لیے ایک پیالی میں خون بھر کر اپنی انگلیاں اس میں ڈبو کر چاٹ لیں۔ پانچویں دن مسجد حرام میں جمع ہوئے۔ ابو امیہ بن مغیرہ مخزومی نے جو حضرت ام الموَمنین ام سلمہ کا والد اور قرابت میں سب سے اہم تھا۔ یہ رائے دی کہ کل صبح جو شخص اس مسجد کے باب بنی شبیبہ سے حرم میں داخل ہو وہ ثالث قرار دیا جائے۔ سب نے اسی رائے سے اتفاق کیا۔ دوسرے روز سب سے پہلے داخل ہونے والے ہمارے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ دیکھتے ہی سب پکار اٹھے "یہ امین ہیں ہم ان پر راضی ہیں" جب انہوں نے آپ سے یہ معاملہ ذکر کیا تو آپ نے ایک چادر بچھا کر اس میں حجرا اسود کو رکھا۔ پھر فرمایا کہ ہر طرف والے ایک ایک سردار انتخاب کر لیں اور وہ چاروں سردار چادر کے چاروں کونے تھام لیں ااور اوپر اٹھائیں۔ اسی طرح جب وہ چادر مقام نصب کے برابر پہنچ گئی تو حضرت نے حجرا اسود کو اپنے مبارک ہاتھوں سے اٹھا کر دیوار میں نصب فرما دیا۔ اور وہ سب خوش ہو گئے۔
قریش نے اس تعمیر میں بہ نسبت سابق کئی تبدیلیاں کردیں۔ بنائے خلیل میں ارتفاع نوگز تھا۔ اب 18 گزارتفاع کرکے عمارت مسقف کر دی گئی۔ مگر سامان تعمیر کے لیے نفقہ حلال کافی نہ ملا۔ اس لئے بنائے خلیل میں سے جانب غرب کا کچھ حصہ چھوڑ دیا گیا اور اس کے گرد چار دیواری کھینچ دی گئی کہ پھر موقع ملے گا تو کعبہ کے اندر لے لیں گے اس حصہ کو حجر یا حطیم کہتے تھے۔ بنائے خلیل میں کعبہ کا دروازہ سطح زمین کےبرابر تھا مگر اب قریش نے زمین سے اونچا کر دیا۔ تاکہ جس کو چاہیں اندر جانے دیں اور جس کو چاہیں روک دیں۔ عہد نبوت میں حضرت کا ارادہ ہوا کہ حجر کی عمارت کعبہ میں ملالیں دروازہ سطح زمین کے برابر کر دیں۔ مگر بدیں خیال ایسا نہ کیا کہ قریش نئے نئے مسلمان ہیں، کہیں دیوار کعبہ کے گرانے سے بدظن ہوکر دینِ اسلام سے نہ پِھر جائیں۔
- Get link
- X
- Other Apps
Comments
Post a Comment
jazak Allah..