Syedna Ghous-Ul-Azam R.A
سیّدنا غوث الاعظم رحمتہ اللہ علیہ
آپ میں ولایت کی نشانیاں ایام طفولیت میں ہی ظاہر ہونے لگی تھیں بغداد میں آٹھ برس تک تفسیر ،حدیث اور فقہ کا علم حاصل کرتے رہے
:پیر فاروق بہاؤ الحق شاہ
حضرت شیخ سیّدنا عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ وسطیٰ ایشیائی ریاستوں اور بر صغیر میں اسلام کا نور پھیلانے والی
مقتدر اور عظیم شخصیات میں سے ایک ہیں۔آپ نے اپنے علم اور روحانیت کی بدولت ایک حقیقی انقلاب برپا کیا۔سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک اور خلافت راشدہ کے اختتام پر مسلمانوں میں انتشار کی آگ بھڑک اٹھی جس نے تحریک اسلامی کو شدید نقصان پہنچایا۔
60ہجری میں وقوع پذیر ہونے والے واقعہ کربلا نے اسلام کے چہرے پر کاری ضرب لگائی۔اسلام دشمن قوتوں اور دور جہالت کی قبائلی عصبیت کا اتنا بد تر اظہار تھا کہ جس کے اثرات آج بھی محسوس کئے جاتے ہیں۔شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بعد90سالہ اموی دور حکومت میں اسلام اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ جو کچھ کیا گیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
آنے والی چار صدیوں میں مختلف فرقوں اور فتنوں نے جس طرح سر اٹھایا اس کے ما بعد اثرات ایک واضح حقیقت کے طور پر سامنے آئے۔
ان حالات میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ یکم رمضان ا لمبارک470ھ 17مارچ 1078کو ایران کے صوبہ کرمانشاہ کے مغربی شہر گیلان میں تولد ہوئے۔اس جگہ کو جیلان اور گیلان بھی کہا جاتاہے۔آپ سے ولایت کی نشانیاں ایام طفولیت میں ہی ظاہر ہونے لگی تھیں۔اور ان کی یہ کرامت کتب کثیرہ میں تحریر ہے کہ آپ رمضان المبارک میں والدہ کا دودھ نہیں پیتے تھے۔
ان کی والدہ ماجدہ فاطمہ ام الخیر بیان فرماتی ہیں کہ احکام شریعت کا احترام قدرت نے ان کے خون میں رکھ دیا تھا۔ ایک مرتبہ بادل کی وجہ سے رمضان المبارک کے چاند نظر آنے سے رہ گیا۔اگلی صبح لوگوں نے آکر دریافت کیا کہ آج صبح عبدالقادر نے دودھ پیایا نہیں۔والدہ محترمہ نے جب بتایا کہ آپ نے دودھ نہیں پیاتو اہل شہر نے اسی پر یقین کرتے ہوئے رمضان المبارک کے روزے کا اعلان کر دیا۔
آپ کا بچپن عام بچوں سے یکسر مختلف تھا۔بچپن میں ہی ایثار ولایت ظاہر ہوتے تھے۔آپ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ جب لڑکپن میں میں عام لڑکوں سے کھیلنے جاتا تو مجھے غیب سے آواز آتی کہ لہو ولعب سے باز رہو۔جس سے میں جلدی بھاگ کر گھر آجاتا۔
آپ کے والد ماجد ابو صالح جنگی دوست بھی ایک صالح اور بلند بخت انسان تھے۔”قواعد الجواہر“میں ہے کہ آپ کو جنگی دوست اسی وجہ سے کہا جاتاہے کہ آپ جنگ کو دوست سمجھتے مطلب جہاد سے محبت کرتے تھے جبکہ ”ریاض الحیات“میں اس لقب کی تشریح اس طرح کی گئی ہے کہ آپ ہمیشہ اپنے نفس سے جہاد فرماتے تھے اور نفس کشی کو تزکیہ نفس کی اصل سمجھتے تھے۔
حضور غوث اعظم تقریباًدس برس کی عمر تک مقامی مکتب میں زیر تعلیم رہے۔معروف مورخ جناب طالب ہاشمی نے اپنی
کتاب تذکرہ غوث اعظم میں آپ کا زمانہ تدریس یہی دورانیہ تحریر کیاہے۔حضرت سیّدنا غوث اعظم18برس کی عمرمیں488ء میں بغداد میں جلوہ گر ہوئے۔
یہ وہ وقت تھا کہ جب امام وقت حضرت امام غزالی نے راہ طریقت کی تلاش میں مسند تدریس کو چھوڑ دیا تھا۔
اور بغداد کو خیر آباد کہہ کر راہ طریقت کے مسافر بن گئے تھے۔گویا کہ اللہ کریم کی حکمت تھی کہ ایک عظیم شخصیت بغداد کو چھوڑ رہی ہے تو اس کی جگہ لینے کیلئے اور ایک نادر روز گار شخصیت جلوہ افروز ہو گئی۔ آپ نے بغداد میں جامعہ نظامیہ میں داخلہ لیا اور تقریباً8سال قیام فرمایا۔اسی قیام کے دوران آپ نے علم قرات ،علم تفسیر ،علم حدیث،علم فقہ،علم لغت ،علم شریعت اور علم طریقت پر خوب مہارت حاصل کی۔
ان علوم کے علاوہ جو علوم اس وقت بغداد میں پڑھائے جارہے تھے آپ نے ان کے حصول میں خوب محبت کی۔آپ نے خود اپنے ایک شعر میں اس کا اظہار کچھ یوں کیا۔
:ترجمہ
میں نے علم پڑھتے پڑھتے فطیت کے مقام پر فائز ہو گیا اور تائید الٰہی سے ابدی سعادت کو پالیا۔ گویا کہ آپ نے امت محمد یہ کو بتا دیا کہ راہ تصوف میں ترقی کرنی ہے تو علم کے بغیر ممکن نہیں۔
ایسے جاہل اور ان پڑھ لوگوں کو واضح بتا دیا کہ جو شخص احکام شریعت سے واقف نہیں اور علم سے بے بہرہ ہے وہ راہ تصوف کا مسافر نہیں بن سکتا۔
تحصیل علم سے فراغت کے بعد آپ مسند تدریس پر فائز ہو گئے۔تصوف،ولایت کے عظیم مرتبہ پر فائز ہونے کے باوجود اور خلق خدا کی روحانی تربیت میں مشغولیت کے باوصف آپ نے درس وتدریس اور فتوی نویسی سے پہلو تہی نہیں کی۔
آپ مختلف تیرہ علوم کا درس ارشاد فرماتے۔اس کے لئے باقاعدہ ٹائم ٹیبل مقرر تھا۔آپ کی مجلس وعظ وارشاد میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہوتے علما قلم دوات لے کر حاضر ہوتے اور آپ کے ارشادات قلم بند کرتے۔حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی ارشاد فرماتے ہیں کہ ”حضرت شیخ کی کوئی محفل ایسی نہ تھی کہ جس میں یہودی،عیسائی اور دیگر غیر مسلم آپ کے دست مبارک پر اسلام قبول نہ کرتے۔
کئی جرائم پیشہ،بد کردار،ڈاکو اور بد مذہب اور فاسد عقائد رکھنے والے اپنی سابقہ زندگی سے تائب نہ ہوتے۔
”آپ خلفاء وزراء سلاطین عدلیہ اور عوام وخواص سب کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر فرماتے اور بڑی حکمت وجرات کے ساتھ بھرے مجمع اور کھلی محافل ومجالس میں بر سر منبر علی الاعلان ٹوک دیتے ۔جو شخص کسی ظالم کو حاکم بناتا اس پر اعتراض کرتے اور اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں ملامت کی پرواہ نہ کرتے۔
آپ کے متعدد اقوام کتب میں منقول ہیں آپ نے صدق سے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا،صدق کی تین اقسام ہیں۔
(1) صدق اقوام میں یہ ہے کہ ان کا قیام دل کی موافقت پر ہو۔
(2)صدق اعمال میں یہ ہے کہ ان کا قیام حق کی روایت پر ہو۔
(3)احوال میں یہ ہے کہ ان کا قیام خود حق پر مبنی ہو۔
انہیں نہ رقیب کا مطالبہ مکدر کرے اور نہ فقہ کا جھگڑا۔
توکل کی بابت پوچھا گیا توفرمایا دل کا خدا کی طرف مشغول ہونا اور غیر خدا سے الگ ہونا تو کل ہے۔آپ نے فرمایا توبہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی طرف اپنی عنایت سے دیکھے اور اسی عنایت سے اپنے بندے کے دل کی طرف اشارہ کرے اس کو اپنی خاص شفقت سے اپنی طرف توجہ کرتے ہوئے پھیر دے۔حضور غوث الاعظم کا سلسلہ اس دنیا کے طول وعرض میں پھیلا ہوا ہے۔
اپنی مخصوص شرافت ،ونجابت کی بدولت آپ دنیا بھر کے لئے باعث برکت ہیں۔آپ نے طالبین حق کے لئے کئی کتب تحریر کیں جن میں”غنیتہ الطالبین،الفتح الربانی،ملفوظات ،فتوح الغیب،جلاء الخاطر ،بہجتہ الاسرار،الرسالة القویة ،رسالہ غوثیہ،ادب سلوک والتوصل “نمایاں ہیں ۔شیخ عبدالقادر جیلانی نے8ربیع الاول561ہجری1166ء میں89سال کی عمر میں وصال فرمایا۔اور آپ کی تدفین بغداد شریف میں ہوئی۔
Comments
Post a Comment
jazak Allah..