اخلاص کا بیان
:ارشادِ باری تعالیٰ ہے
"انہیں صرف اسی بات کا حکم دیا گیا ہے وہ (باطل کو چھوڑ کر) ایک طرف رہتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ کے بارے میں خالص عقیدہ رکھتے ہوئے اسی کی عبادت کریں،نماذقائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں یہی سیدھا دین ہے".
:ارشادِ باری تعالیٰ ہے
.اللّٰہ تعالیٰ تک ان (جانوروں کی قربانی)کا گوشت یا ان کا خون نہیں پہنچتا بلکہ اس کی بارگاہ میں تمہارا تقوہ پہنچتا ہے
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
" تم فرمادو ! تم لوگ اپنے سینے میں چھپاؤ یا ظاہر کرو اللّٰہ تعالیٰ اس کا علم رکھتا ہے"
حضرت عمر فاروق (رضی اللّٰہ عنہ)فرماتے ہیں'میں نےنبی اکرم (صلی اللّٰہ علیہ وسلم)کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ "(اعمال کی صحت/اجرو ثواب)کا دارومدار نیت پر ہے۔پس جو شخص اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول (کی رضا کے حصول) کے لئے ہجرت کرے گا۔تو (اجرو ثواب کے اعتبار سے)اس کی ہجرت اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) کے لئے ہی شمار ہو گی۔اورجس شخص نے(کسی) دنیاوی مقصد کے حصول یاکسی عورت سے نکاح کے لئے ہجرت کی تو اس کی ہجرت اس طرف ہوئی جس طرف اس نے ہجرت کی تھی۔(یعنی جو اس نے نیت کی تھی اس کے مطابق اس کو بدلہ ملے گا۔)"
م المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ (رضی اللّٰہ عنہ) بیان کرتی ہیں' نبی اکرم (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: ایک لشکر خانہ کعبہ پر حملہ کرنے کے لیئے آئے گا جب وہ چٹیل میدان میں پہنچیں گے تو ان کے آگے والے اور پیچھے والے (درمیان والے) یعنی سب لوگوں کو دھنسا دیا جائے گا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ (رضی اللّٰہ عنہ) بیان کرتی ہیں'میں نے عرض کی: یا رسول اللّٰہ (صلی اللّٰہ علیہ وسلم)ان سب کے لوگوں کو کیسے دھنسایا جائےگا جب کہ اس لشکر میں ان کے بازار ہوں گے اور وہ لوگ بھی ہوں گے جن کا اس سے تعلق نہیں ہے۔(یعنی وہ لوگ حملہ کرنے نہیں آئے ہوں گے)
نبی اکرم (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا:ان سب لوگوں کو دھنسا دیا جائے گا پھر ان کو انکی نیتوں کے مطابق (قیامت زندہ کیا جائے گا۔۔ (متفق علیہ)
!سیدہ عائشہ صدیقہ(رضی اللّٰہ عنہ) بیان کرتی ہیں،نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے۔۔
فتح مکہ کے بعد ہجرت باقی نہیں رہی البتہ جہاد اور نیت ہے جب تمہیں (جہاد کے لئے)نکلنے کے لئے کہا جائے تو روانہ ہو جاؤ۔(متفق علیہ)
امام نووی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں: اس کا مطلب ہے"مکہ سے ہجرت کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی کیونکہ وہ دار السلام بن چکا ہے۔
حضرت ابی عبداللّٰہ جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک غزوے میں شریک ہوئے۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
مدینہ منورہ میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں، تم لوگوں نے جو بھی سفر کیا اور جس بھی وادی سے گزرے وہ لوگ تمہارے ساتھ تھے یہ وہ لوگ ہیں جو کسی بیماری کی وجہ سے نہیں آ سکے۔
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: یہ لوگ اجر میں تمہارے شریک ہیں۔
اس حدیث کو امام مسلم رحمۃ اللّٰہ علیہ نے روایت کیا ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اسی حدیث کو حضرت انس رضی اللّٰہ عنہ کے حوالے سے نقل کیا ہے۔وہ فرماتے ہیں: ہم غزوۂ تبوک سے نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ہمراہ واپس آ رہے تھے۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ہمارے پیچھے مدینہ میں کچھ لوگ ہیں۔ ہم جس بھی گھاٹی اور وادی سے گزرے، یہ لوگ ہمارے ساتھ تھے (کیونکہ) یہ معذور ہونے کی وجہ سے نہیں آ سکے۔
حضرت معن یزید بن اُخنسؓ بیان کرتے ہیں یہ ان کے والد اور ان کے دادا تمام صحابی ہیں وہ فرماتے ہیں: میرے والد یزید نے کچھ دینار نکالے تاکہ انہیں صدقہ کریں وہ انہوں نےمسجد میں ایک شخص کے پاس رکھوا دیَےمیں آیا اور میں نے وہ دینار اس شخص سےوصول کر لئےمیں ان دیناروں کولےکر والد صاحب کے پاس آیا تو انھوں نے فرمایا کہ اللہ کی قسم۔۔! میں نے تمہارا ارادہ نہیں کیا تھا،میں یہ مقدمہ لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپﷺ نے فرمایا
اے یزید۔۔! تم نے جو نیت کی تھی اس کا تمہیں اجر ملے گا
اےمعن! تم نے جو وصول کر لیا وہ تمہارا ہے۔
اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
Comments
Post a Comment
jazak Allah..