Kia Wabaen Gunahon Ki Wajah Se Aati Hain
👇👇Kia Wabaen Gunahon Ki Wajah Se Aati Hain
مختلف قسم کی وبائیں ، ہلاکتیں ، حادثات ، طوفان ، زلزلے ، تباہیاں آنے پر دو طرح کے رویے سامنے آتے ہیں۔ اہلِ علم اور دین داروں کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ مصیبتیں خدا کے حکم سے بہت سی حکمتوں کے پیشِ نظر آتی ہیں ، ایک حکمت مصیبتوں میں لوگوں کا امتحان مقصود ہوتا ہے کہ صبر کرتے ہیں یا بے صبری؟ ایک حکمت نیک بندوں کے کردار و عمل کو سامنے لانا ہوتا ہے تاکہ عام لوگ ان کے حسنِ عمل کی پیروی کریں۔ ایک حکمت نیک بندوں کے مراتب و درجات کی بلندی ہوتی ہے۔ ایک حکمت گناہگاروں کو تنبیہ اور نصیحت ہوتی ہے کہ وہ گناہوں سے باز آ جائیں اور زندگی کی مہلت سے فائدہ اٹھائیں۔ ایک حکمت گناہوں کی سزا ہے اور ان گناہوں میں سب سے بڑھ کر بے حیائی ، بدکاری اور بے شرمی ہے۔ یہ چند ایک حکمتوں کا بیان ہے جس پر مزید بھی بہت سے اسباب کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف لبرل ، آزاد خیال ، دین بیزار ، مغربی فلسفے کے اسیر اور خود کو عقلِ کُل سمجھنے والے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے قلموں کو تیر بنا کر اہلِ ایمان کے دلوں کو چھلنی کرنے اور مسلمانوں کے دین و ایمان کا شکار کرنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ طرح طرح سے ان باتوں کا مذاق اڑانے ، عذابِ الٰہی پر مزاحیہ جملے کسنے اور بے مقصد و بےربط دلائل دینے کے لئے کمر کَس لیتے ہیں۔ ان میں کچھ افراد عذابِ الٰہی کے متعلق غیر مسلم مغربی فلسفیوں کے وہمی باطل دلائل ان کا حوالہ دئیے بغیر ایسے انداز میں پیش کرتے ہیں جیسے یہ خود اِن ارسطوؤں ، افلاطونوں کے دماغ کی اختراع ہے حالانکہ وہ سب چوری کی دلیلیں ہوتی ہیں اور یہ بیچارے تو روزی روٹی کی خاطر لکھ رہے ہوتے ہیں۔ بعض تو اِس حد تک گِر جاتے ہیں کہ دنیا بھر میں سود پھیلانے والے کسی مرکزی ملک کی سیر کرکے واپس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ مولوی کہتے ہیں کہ سود خدا سے جنگ ہے ، سود سے تباہی ہوتی ہے لیکن ہم تو فلاں مرکزی سودی ملک دیکھ کر آئے ہیں ، ہمیں تو کوئی خدائی جنگ نظر نہیں آئی بلکہ وہ تو ہم سے ہزاروں گُنا خوش حال ہیں۔ ایسے لوگ سیدھا سیدھا قرآن کا رد کرنے کی جرأت تو نہیں رکھتے اس لئے مولوی کا لفظ بطورِ حیلہ استعمال کرتے ہیں ، حالانکہ سود کو خدا سے جنگ کسی مولوی نے قرار نہیں دیا بلکہ قرآن کی آیت میں لکھا ہے۔ بہرحال مسلمان کی حیثیت سے ہم مسلمانوں کی تسلی کے لئے مسلمانوں کے قرآن اور احادیث سے دلائل پیش کرتے ہیں کہ مصیبتوں کے اسباب کیا ہوتے ہیں اور کیا گناہوں کی سزا بھی ان میں شامل ہے یا نہیں؟
آئیے جواب لیجئے : مصیبتوں سے امتحان مقصود ہوتا ہے چنانچہ اس کے متعلق قرآن میں ہے : وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ(۱۵۵) الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ-قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ(۱۵۶) اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ -وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ(۱۵۷) اور ہم ضرور تمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو ، وہ لوگ کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں : ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے درود ہیں اور رحمت اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ ([i]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
مصیبتوں سے کھوٹے اور کھرے کا فرق مقصود ہوتا ہے چنانچہ قرآن میں ہے : اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَ یَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ(۱۴۲) کیا تم اس گمان میں ہو کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے تمہارے مجاہدوں کا امتحان نہیں لیا اور نہ (ہی) صبر والوں کی آزمائش کی ہے۔ ([ii]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور سورۂ عنکبوت میں فرمایا : اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ(۲) وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِیْنَ(۳) کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ انہیں صرف اتنی بات پر چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ کہتے ہیں : ہم ایمان لائے اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا؟ اور بیشک ہم نے ان سے پہلے لوگوں کو آزمایا تو ضرور ضرور اللہ انہیں دیکھے گا جو سچے ہیں اور ضرور ضرور جھوٹوں کو (بھی) دیکھے گا۔ ([iii]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جتنی آزمائش کڑی ہو گی اجر بھی اتنا ہی عظیم ہو گا ، اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو ان کی آزمائش فرماتا ہے چنانچہ جو اللہ تعالیٰ کی آزمائش پر راضی ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جاتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی آزمائش پر ناراضی کا اظہار کرے اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناراضی ہوتی ہے۔ ([iv])
مصیبتوں سے مقصود مقربینِ بارگاہِ الٰہی کا امتحان، درجات کی بلندی اور لوگوں کے لئے اسوۂ حسنہ قائم کرنا ہوتا ہے چنانچہ حضرت نوح علیہ السَّلام کی سینکڑوں سال کی تبلیغ کے بعد بھی اکثر قوم کا ایمان نہ لانا ، حضرت ابراہیم علیہ السَّلام کا آگ میں ڈالا جانا ، فرزند کو قربان کرنا ، حضرت ایوب علیہ السَّلام کو بیماری میں مبتلا کیا جانا ، ان کی اولاد اور اموال کا ختم ہو جانا ، حضرت موسیٰ علیہ السَّلام کا مصر سے مدین جانا ، مصر سے ہجرت کرنا ، حضرت عیسیٰ علیہ السَّلام کا ستایا جانا اور انبیاءِ کرام علیہم السَّلام کا شہید کیا جانا یہ سب آزمائشوں کی مثالیں ہیں اور ان مقدس ہستیوں کا صبر ان کے لئے بلندئ درجات اور مسلمانوں کے لئے ایک نمونے کی حیثیت رکھتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۚ- بیشک ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں تمہارے لیے بہترین پیروی تھی۔ ([v]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جب انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی ایسا درجہ مختص ہو جسے پانے کے لئے انسان کے اعمال ناکافی ہوں تو اللہ تعالیٰ اس کو جسم ، مال یا اولاد کی مصیبتوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ([vi]) اوررسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے تکالیف میں مبتلا کرتا ہے۔ ([vii]) صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اَجْمعین اور بزرگانِ دین کا مختلف وباؤں میں انتقال کرنا بھی اسی قسم میں داخل ہے
- Get link
- X
- Other Apps
Comments
Post a Comment
jazak Allah..